کیا بتا دوں اور کیا کیا ہے تری زنبیل میں

غزل| انؔیس بھٹکلی انتخاب| بزم سخن

کیا بتا دوں اور کیا کیا ہے تری زنبیل میں
چھوڑ رہنے دے نہیں جانا مجھے تفصیل میں
منتظر صدیوں سے ہوں آئیں گے کب زیرِ نظر
جانے کتنے فیصلے ہیں وقت کی تحویل میں
ساری دنیا بے خبر ہے ہاں مجھے معلوم ہے
جو مزہ رکھا ہے تیرے حکم کی تعمیل میں
کتنے پروانے اُمڈ آئے تھے اُس کے آس پاس
جانے کیا روشن ہوا تھا نور کی قندیل میں
پھول غنچہ یا کلی خوشبو کنول شبنم بہار
اور کیا لکھے کوئی شاعر تری تمثیل میں
کل کا جو قابیل تھا وہ صرف قاتل تھا مگر
جرم کی دنیا بسی ہے آج کے قابیل میں

عشق دریا ہے یہاں طوفاں بھی اٹھیں گے انیسؔ
پرسکوں ماحول ہوتا ہے سنہری جھیل میں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام