تصور کے دریچوں میں حسیں دنیا سجاتا ہے

غزل| انؔیس بھٹکلی انتخاب| بزم سخن

تصور کے دریچوں میں حسیں دنیا سجاتا ہے
مجھے اکثر سرور و کیف کے نغمے سناتا ہے
یہ دنیا ہے یہاں کب کون کس کے کام آتا ہے
مگر وہ ہے کہ ساری دولتیں مجھ پر لٹاتا ہے
کسی نے آج تک شاید حریف ایسا نہیں دیکھا
مقابل ہو اگر میرے تو بازی ہار جاتا ہے
بہت بے لوث ہے پُرلطف ہے اس کا تعلق بھی
میں اس سے کچھ نہ مانگوں تو وہ مجھ سے روٹھ جاتا ہے
نہیں جاتی ہے میرے دل سے لیکن آرزو اس کی
حقیقت یہ ہے وہ مجھ کو برابر آزماتا ہے
اِدھر میں ہوں کہ اُس کے ہر ستم کو بھول جاتا ہوں
اُدھر وہ بھی مری سادہ دلی پر مسکراتا ہے
میں اپنے دل کے کاغذ پر فقط نقشے بناتا ہوں
وہ ان نقشوں کو خود ہی حُسن کا پیکر بناتا ہے
اجالے بانٹ کر لگتا ہے اک دن لوٹ جائے گا
بوقتِ شام ڈھل کر جیسے سورج ڈوب جاتا ہے

انیسِؔ بے نوا کا یار کہتی ہے اُسے دنیا
یہی کچھ سوچ کر مجھ کو بھی اُس پر پیار آتا ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام