سحر کے انوار دیکھتا ہوں طلوعِ نجمِ سحر سے پہلے

غزل| مولانا عامرؔ عثمانی انتخاب| بزم سخن

سحر کے انوار دیکھتا ہوں طلوعِ نجمِ سحر سے پہلے
نظر میں یہ وسعتیں کہاں تھیں کسی کے فیضِ نظر سے پہلے
خیالِ سود و زیاں مٹا دے گذر غمِ خیر و شر سے پہلے
یہی تو دشوار منزلیں ہیں مقامِ سوزِ جگر سے پہلے
تجھے خود اپنی خبر ہے لازم جہاں کے علم و خبر سے پہلے
مسافتِ قلب و روح طے کر سیاحت بحر و بر سے پہلے
یہ کسی منزل ہے کیسی راہیں کہ تھک گئے پاؤں چلتے چلتے
مگر وہی فاصلہ ہے قائم جو فاصلہ تھا سفر سے پہلے
قفس کے اے سادہ دل اسیرو! قفس کا در توڑنا تو ممکن
مگر چمن تک بھی جا سکو گے یہ پوچھ لو بال و پر سے پہلے
خرد کے بل پر جو دے رہے ہیں ہماری دیوانگی کو طعنے
وہ اہلِ ظاہر گزر کے دیکھیں ذرا تری رہ گذر سے پہلے
خلوصِ پائے طلب کے صدقے کہیں بھی پائے طلب نہ ٹہرا
ہزار دیر وحرم نے روکا ہمیں ترے سنگِ در سے پہلے
ہیں وضع داری میں مہر برلب زباں پہ ان کی حیا کے پہرے
یہ دیکھنا ہے کہ آخر آخر دھواں اٹھے گا کدھر سے پہلے
نوازشِ چارہ گر نے ہم دم دیا تو دل کو قرار لیکن
دل اس قدر مضمحل نہیں تھا نوازشِ چارہ گر سے پہلے
کہاں وہ نظروں کا اک تصادم کہاں یہ مضبوط ربط قائم
ضرور ان سے یہ فتنہ گر دل ملا ہوا تھا نظر سے پہلے
شبِ غلامی کی صبحِ نو کا یہ فائدہ میں بھی جانتا ہوں
کہ وہ اندھیرے چمک اٹھے ہیں جو بجھ رہے تھے سحر سے پہلے
طویل و ناکام زندگی کی یہ رات کیسے کٹے گی یارب
چراغِ امید گل ہوا ہے ظہورِ نورِ سحر سے پہلے
درِ حوادث پہ سر جھکانا مری خودی کو نہیں گوارا
میں آشیاں خود ہی پھونک لوں گا نزولِ برق و شرر سے پہلے
کمالِ علم و ہنر نے عامرؔ بنا دیا رات کو سویرا
گناہ اتنا حسین کب تھا کمالِ علم و ہنر سے پہلے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام