بڑی مشکل کہانی تھی مگر انجام سادہ ہے

غزل| ذو الفقار عادلؔ انتخاب| بزم سخن

بڑی مشکل کہانی تھی مگر انجام سادہ ہے
کہ اب اس شخص کا ہم سے بچھڑنے کا ارادہ ہے
اور اس کے بعد اک ایسے ہی لمحے تک ہے خاموشی
ہمیں درپیش پھر سے لمحۂ تجدیدِ وعدہ ہے
سنو رستے میں اک جلتا ہوا صحرا بھی آئے گا
کہو کب تک ہمارے ساتھ چلنے کا ارادہ ہے
ہمیں آسانیوں سے پیار تھا اور لوگ کہتے تھے
اگر منزل سے ہٹ جائے تو ہر رستہ کشادہ ہے
ستارہ در ستارہ ٹوٹتا ہے آسماں تو بھی
ترے قصے میں بھی میری کہانی کا اعادہ ہے
میں ہوں نامعتبر منزل کی خاطر معتبر رہ پر
وجودِ خواہشِ جاں پر دعاؤں کا لبادہ ہے

کچھ ایسی شدتوں سے ہم گزر کر آئے ہیں عادلؔ
ہمیں تیری ضرورت بھی ضرورت سے زیادہ ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام