یا رنج و بلا کا خوف نہ کر یا نام نہ لے آزادی کا

نظم| مولانا عامرؔ عثمانی انتخاب| بزم سخن

یا رنج و بلا کا خوف نہ کر یا نام نہ لے آزادی کا
جب ولولۂِ پرواز نہیں الزام نہ لے آزادی کا
آزادی کو تلواروں کی آغوش میں پالا جاتا ہے
آبادی کو بربادی کے سانچوں میں ڈھالا جاتا ہے
میدانِ وفا میں جینے کا ارمان نکالا جاتا ہے
غیرت کے سنہرے پرچم کو سر دے کے سنبھالا جاتا ہے
یا فلسفۂ لا٘ تَحْزَنْ کی تاویل نہ کر شمشیر اٹھا
یا اپنے سرِ ناکارہ سے یہ تہمتِ دار و گیر اٹھا
دریائے سکون و راحت میں طوفان ہزرواں آئیں گے
ہستی کے مسرت خانوں پر تیغوں کے علم لہرائیں گے
ماں باپ کی آنکھوں کے آگے اولاد کے سر کٹ جائیں گے
اربابِ وطن کے سینوں میں دل لرزیں گے تھرّائیں گے
گم ہوں گے کتابِ ہستی سے ایمان و وفا کے افسانے
خود شمع بجھانے کی خاطر یلغار کریں گے پروانے
گڑجائے گا سینوں میں پرچم خنجر کی چمکتی دھاروں کا
پی پی کے لہو انسانوں کا متلائے گا جی تلواروں کا
پرسانِ الم ہوگا نہ کوئی مردوں کے سوا بیماروں کا
چھپ جائیں گے ڈر کر شمس و قمر رخ زرد پڑے گا تاروں کا
ہر گام پہ توپیں گرجیں گی ہر گام پہ گولے برسیں گے
ہر شاخ جلا دی جائے گی ہر نخل پہ اولے برسیں گے
بڑھنا ہے اگر اس میداں میں ہر غم کو بھلا کر آگے بڑھ
ایمان و یقیں کو قسمت کی تحریر بنا کر آگے بڑھ
آہنگِ نفَس سے غلغلۂ تکبیر اٹھا کر آگے بڑھ
اپنے ہی دھڑکتے سینہ پر اک زخم لگا کر آگے بڑھ
وہ نعرہ لگا تو میداں میں شیروں کے بھی سینے پھٹ جائیں
ہر جنبشِ چشمِ ابرو سے شیطان کے لشکر کٹ جائیں
مانا کہ بساطِ عالم پر مجبور ہے تو لاچار ہے تو
باطل کے عساکر کے آگے ٹوٹی ہوئی اک تلوار ہے تو
آباد ہیں وہ برباد ہے تو زر دار ہیں وہ نادار ہے تو
وہ روئے زمیں کے مالک ہیں اور دوشِ زمیں پر بار ہے تو
لیکن یہ جہاں سب تیرا ہے تاریخِ سلف دہراتا چل
ایمان وعمل کے بربط پر اسلام کا نغمہ گاتا چل

مولانا عامر عثمانی کی یہ نظم 1947 سے پہلے دیوبند کے ہر جلسے میں سنی جاتی تھی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام