ہزار طاق سجے سیکڑوں چراغ جلے

غزل| مولانا عامرؔ عثمانی انتخاب| بزم سخن

ہزار طاق سجے سیکڑوں چراغ جلے
ہماری رات کے سائے مگر ذرا نہ ڈھلے
یہ بزمِ عیش ہے ساقی خدا کا نام نہ لے
یہاں تو ساغرِ زریں چلے شراب چلے
کوئی بھی عقدۂ دشوارِ زندگی نہ کھلا
بہت سی عمر گزاری ہے گیسؤوں کے تلے
بلا سے لاشۂ اسلام بے کفن ہی سہی
لحد پہ عرس ہو چادر چڑھے چراغ جلے
وہی ہے راہ روِ جادۂ وفا اے دوست
جسے بفیضِ محبت ترے ستم نہ گھلے
مآلِ جذب و جنوں جو بھی ہو خدا کے سپرد
ہجومِ شوق میں تیغوں پہ رکھ دیئے ہیں گلے
بتوں کے در سے عطا ہو جو عزت و حشمت
ہم ایسی عزت و حشمت سے دور دور بھلے
تمام عمر گذاری ہوس کے سائے میں
اجل کا وقت جو آیا تو ہم نے ہاتھ ملے
شبِ نشاط سے اہلِ نظر کو شکوہ ہے
کہ انجمن میں چراغوں کے ساتھ دل بھی جلے
حرم کے حق میں ہیں وہ مارِ آستیں عامرؔ
دل و دماغ جو بچپن سے بت کدے میں چلے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام