اُن کی زلفوں میں جتنی شکن چاہیے

غزل| کلیم احمد عاجزؔ انتخاب| بزم سخن

اُن کی زلفوں میں جتنی شکن چاہیے
ہم کو اُتنا ہی دیوانا پن چاہیے
چاہیے اُن کو رنگیں قبا اور ہمیں
چاک کرنے کو اک پیرہن چاہیے
یہ بھی ہے ایک سامانِ دل بستگی
کچھ تماشائے دار و رسن چاہیے
میرے جیسے مسافر بہت آئیں گے
اُن کے جیسا حسیں راہزن چاہیے
قتل کرنے ہی کا اک سلیقہ سہی
کچھ تو مشہور ہونے کو فن چاہیے
آج کل سب کا بدلا ہوا بھیس ہے
شیخ ڈھونڈو اگر برہمن چاہیے
دل کا ایک ایک قطرہ لہو دے دیا
اور کیا ائے بہارِ چمن چاہیے
ہم تو جلتے ہیں تم بھی جلو دوستو
شمع کے واسطے انجمن چاہیے
اپنے ٹھنڈے دلوں کے لئے مانگ کر
ہم سے لے جاؤ جتنی جلن چاہیے
کج کلاہی فقط کام آتی نہیں
کچھ طبیعت میں بھی بانکپن چاہیے
کہنے والے پہ گذرے سو گذرا کرے
سننے والوں کو لطفِ سخن چاہیے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام