تم گل تھے ہم نکھار ابھی کل کی بات ہے

غزل| کلیم احمد عاجزؔ انتخاب| بزم سخن

تم گل تھے ہم نکھار ابھی کل کی بات ہے
ہم سے تھی سب بہار ابھی کل کی بات ہے
بیگانہ سمجھو غیر کہو اجنبی کہو
اپنوں میں تھا شمار ابھی کل کی بات ہے
آج اپنے پاس سے ہمیں رکھتے ہو دُور دُور
ہم بِن نہ تھا قرار ابھی کل کی بات ہے
اِترا رہے ہو آج پہن کر نئی قبا
دامن تھا تار تار ابھی کل کی بات ہے
آج اِس قدر غرور یہ انداز یہ مزاج
پِھرتے تھے میرخوار ابھی کل کی بات ہے
انجان بن کے پوچھتے ہو ہے یہ کب کی بات
کل کی ہے بات یار ابھی کل کی بات ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام