ہم خونِ تمنا پیتے ہیں غم کھا کے گذارا کرتے ہیں

غزل| منشی رشید انورؔ انتخاب| بزم سخن

ہم خونِ تمنا پیتے ہیں غم کھا کے گذارا کرتے ہیں
رو رو کے رُخِ ہستی اپنا اشکوں سے نکھارا کرتے ہیں
وہ شوخ نگاہوں سے اپنی جب کوئی اشارہ کرتے ہیں
ہر زخمِ جگر کو لالہ و گل ہر داغ شرارا کرتے ہیں
بڑھ جاتی ہے زینت محفل کی اُٹھتی ہے نقابِ رُخ جو کبھی
تصویر تمہاری نظروں سے ہم دل میں اتارا کرتے ہیں
اُمیدِ جفا پر جیتے ہیں مرتے ہیں وفا کے نام پہ ہم
بگڑی ہوئی اپنی حالتِ دل رو رو کے سنوارا کرتے ہیں
تم گل ہو چمن کے لیکن ہم دامن میں تمہارے خار سہی
آ جائے مصیبت پھولوں پر کب ہم یہ گوارا کرتے ہیں
گر صحنِ چمن میں جلوہ فگن ہوتا ہے کبھی وہ غنچہ دہن
کھو جاتے ہیں گل بھی جلوؤں میں جب اُس کا نظارا کرتے ہیں
جب جوش پہ طوفاں ہوتے ہیں گردش میں سفینے ہوتے ہیں
ہم بحرِ الم کی موجوں کو ایسے میں اُبھارا کرتے ہیں
کچھ پوچھ نہ ہم سے حالتِ دل ہے زیست وبالِ جان ہمیں
او بھولنے والے غم میں ترے رو رو کے گذارا کرتے ہیں

کرنے کو اُجالا ائے انورؔ فرقت کی اندھیری راتوں میں
رونے سے جو فرصت ملتی ہے ہم غم کو پکارا کرتے ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام