ازل کے رازِ سربستہ کئے میں نے نہاں اب تک

غزل| منشی رشید انورؔ انتخاب| بزم سخن

ازل کے رازِ سربستہ کئے میں نے نہاں اب تک
بشر ہو کر فرشتوں کا رہا ہوں رازداں اب تک
مری فطرت وفا ہے دے رہا ہوں امتحاں اب تک
وہ ظالم بے وفا لیکن ہے مجھ سے بد گماں اب تک
خزاں گلشن پہ یوں منڈلا رہی ہے باغباں اب تک
کہ زد میں ہر بلا کی ہے ہمارا آشیاں اب تک
زمانہ ہو گیا بجلی گری تھی جب گلستاں پر
مگر اُٹھتا ہے میرے آشیانے سے دھواں اب تک
فضا بدلی ہوئی دیکھی تھی ہم نے ایسی گلشن کی
نظر ہے مطمئن اب تک نہ دل ہے شادماں اب تک
چمن ویراں فضا برباد نظمِ آشیاں برہم
ہمیں غم دے رہا ہے انقلابِ گلستاں اب تک
خلافِ وقت اپنا قافلہ منزل پہ پہونچے گا
کہ محوِ خوابِ شیریں ہے امیرِ کارواں اب تک
خوشی آزاد ہونے کی نہ آئی راس ائے انورؔ
پریشاں بلبلیں ہیں نوحہ خواں ہے باغباں اب تک



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام