افسردگیٔ شوق میں دل گدگدائے کون

غزل| بسملؔ سعیدی انتخاب| بزم سخن

افسردگیٔ شوق میں دل گدگدائے کون
تیرے غمِ فراق کو دل سے بھلائے کون
جس میں غرورِ حسن کو ہو اعترافِ عجز
اس طرح میرے نازِ محبت اٹھائے کون
جس طرح کھل گئے ہوں دریچے بہشت کے
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے یوں مسکرائے کون
دھومیں مچا کے عشوہ و انداز و ناز سے
میرے شبابِ شوق کی راتیں جگائے کون
تیری ہی برقِ حسن سے جو تھی فروغ گیر
اس شمعِ آرزو کو بھلا اب جلائے کون
نظارۂ جمال کی گنجائشیں کہاں
جب تو سما چکا تو نظر میں سمائے کون
جب تک نہ جائے یاد تری چشمِ شوق کی
آغوشِ شوق میں مرے شرما کے آئے کون
دل سے ترے خیال نے سب کچھ بھلا دیا
لیکن ترے خیال کو دل سے بھلائے کون
اب تک تو ہے یہ حال مگر کیا خبر کہ اب
افسردگیٔ شوق کو پھر گدگدائے کون
کر لے کوئی نیاز وفا کو قبولِ ناز
یہ سوچ کر کے پائے ہوئے کو گنوائے کون
بے اختیار پہلے بھی کھویا تھا دل کو جب
پھر دل پہ اختیار خدا جانے پائے کون
اسباب کی خدائی میں آثار بھی تو ہیں
آثار کے خلاف نتائج پہ جائے کون
گرتے ہیں اشک یوں کہ برستے ہوں جیسے پھول
کیا جانے آنسوؤں میں مرے مسکرائے کون
لے کام تیغِ ناز سے پھر ورنہ کیا خبر
قاتل بنے خود اور مجھے بسملؔ بنائے کون



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام