تو چھوڑ کر ہمیں اس طرح کل گیا ہے میاں

غزل| شاذؔ تمکنت انتخاب| بزم سخن

تو چھوڑ کر ہمیں اس طرح کل گیا ہے میاں
ہمارا شہر تو کیا دشت جل گیا ہے میاں
ہمیں پتا ہے کڑی دھوپ کا سفر کیا ہے
ہمارے سر سے تو سورج بھی ڈھل گیا ہے میاں
ہوائے کنج میں کچھ بوئے خوں ہی آتی ہے
کوئی تو پھول کی پتی مسل گیا ہے میاں
یہ کون لوگ ہیں یہ بستیاں اداس ہیں کیوں
یہ کون خاک سی چہروں پہ مل گیا ہے میاں
نہ ہم ہیں دشت مکیں اور نہ تو ہے پردہ نشیں
وصال و ہجر کا موسم بدل گیا ہے میاں
بدل سکو تو بدل دو فغاں کی لے اپنی
زمانہ دوسری کروٹ بدل گیا ہے میاں
تمہاری پیاس کو شبنم کا آسرا تو ملا
ہمارے کھیت سے بادل کا دل گیا ہے میاں
وہ تم کہاں ہے یہ کیوں آپ آپ کہتے ہو
کہ یہ تپاکِ شریفانہ کھل گیا ہے میاں
وہ اتنی دور ہمیں چھوڑ کر گیا ہی نہ تھا
کہ یوں بھی دکھ ہے کہ پہلے پہل گیا ہے میاں
چھپائے رکھا تھا اک خواب اپنی آنکھوں میں
گزشتہ رات وہ نیندوں میں جل گیا ہے میاں

وہ اشک تھا کوئی ارماں تھا جانے کیا تھا شاذؔ
کھٹک رہا تھا جو کانٹا نکل گیا ہے میاں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام