سنا ہے کھیل بگڑتے ہیں خود پسندی سے

غزل| کوملؔ جوئیہ انتخاب| بزم سخن

سنا ہے کھیل بگڑتے ہیں خود پسندی سے
سو ہم نے کام نکالے نیاز مندی سے
محبتوں کا فقط ایک دین ہوتا ہے
گریز کیوں نہیں کرتے ہو فرقہ بندی سے
تمام درد گلے آ کے لگ گئے تھے مرے
بس ایک بار صدا دی تھی درد مندی سے
دعا کا ورد بھی جاری ہے احتیاط بھی ہے
خدا بچائے گا اب دل کی شر پسندی سے

یہ جاننے کے لئے کیسے چیز ٹوٹتی ہے
میں بار بار گرائی گئی بلندی سے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام