سنا ہے کہ ان سے ملاقات ہوگی

غزل| ہیرا لال فلکؔ دہلوی انتخاب| بزم سخن

سنا ہے کہ ان سے ملاقات ہوگی
دلوں میں تو رنجش ہے کیا بات ہوگی
اسی شرط پر اب ملاقات ہوگی
نہ ترکِ وفا کی کوئی بات ہوگی
بڑھاؤں گا کشتی تو طوفاں اٹھیں گے
یا آندھی چلے گی یا برسات ہوگی
نہیں ہے مجھے بے وجہ خوفِ رہزن
سفر میں کہیں نہ کہیں رات ہوگی
تپِ یاس و غم سے ہوئی خشک آنکھیں
اب آنسو کہاں ہیں جو برسات ہوگی
چلے ہیں نگاہوں میں لے کر سویرا
پہنچ کر تیرے در پہ ہی رات ہوگی
ہے اس سے بڑی کیا میری خوش نصیبی
تری زلف کے سائے میں بات ہوگی
میں یہ سوچتا ہوں انہیں سونپ دوں جاں
مگر یہ تو ادنیٰ سی سوغات ہوگی
تری بے رخی کے حسیں آئینے میں
بہت صاف تصویرِ حالات ہوگی
فلکؔ تو ہے اپنوں کو سمجھے ہوئے کیا
ترے ساتھ ہر کام پہ گھات ہوگی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام