بدن کے بوجھ کو خود پر اٹھائے پھرتے ہیں

غزل| کوملؔ جوئیہ انتخاب| سید ریّان

بدن کے بوجھ کو خود پر اٹھائے پھرتے ہیں
زمیں پہ لوگ نہیں صرف سائے پھرتے ہیں
ہر ایک شخص کوکہنا پڑا کہ خوش ہیں بہت
اُجڑ کے حرمتِ دل کو بچائے پھرتے ہیں
گنوا نہ دیں کہیں عجلت پرستیوں میں تجھے
یہ سوچ کر تجھے خود سے لگائے پھرتے ہیں
یوں اضطراب میں دن اور رات گھومتے ہیں
کہ جیسے گردشِ غم کے ستائے پھرتے ہیں
ابھی تلک تو ہم اسباب ڈھو رہے تھے فقط
ذرا سی مل گئی فرصت سرائے پھرتے ہیں
ہو اپنے باپ کی جاگیر یہ محبت بھی
برے دنوں میں اسے یوں بچائے پھرتے ہیں
بچھے گی ان کے بھی دل میں کبھی صفِ ماتم
خوشی خوشی ہمیں اب جو گنوائے پھرتے ہیں
حضور! کس لئے کچے ہیں آپ کانوں کے؟
ہر ایک شخص کی باتوں میں آئے پھرتے ہیں

عجیب زعمِ بصارت کے مارے لوگ ہیں یہ
چراغ ہاتھ میں ہیں اور بجھائے پھرتے ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام