وفا کی امید بے وفا سے رکھا کرو گے تو رو پڑو گے

غزل| ہیراؔ لال یادو انتخاب| بزم سخن

وفا کی امید بے وفا سے رکھا کرو گے تو رو پڑو گے
میں جی رہا ہوں جو زندگی تم جیا کرو گے تو رو پڑو گے
وہ بھول بیٹھا ہے جو سبھی کچھ تو کیوں نہ دل تم اسے بھلا دو
سنو پرانا وہ زخم پھر سے ہرا کرو گے تو رو پڑو گے
سجا کے گھر کو رکھا ہے جس نے بہار ہر پل کیا ہے جس نے
جگر کا ٹکڑا وہ بیٹی گھر سے وداع کرو گے تو رو پڑو گے
ورہ کی راتیں جدائی کے دن بنے تھے دشمن ہماری جاں کے
گزارا تم بن ہے کیسے جیون پتہ کرو گے تو رو پڑو گے
تمہیں کو چاہا تمہیں کو سوچا تمہارا ہی غم بیاں کیا ہے
اگر غزل تم ہماری دل سے پڑھا کرو گے تو رو پڑو گے
برا بہت ہی ہے روگ دل کا نہیں ہے جاتا یہ جاں لیے بن
محبتوں کا جو بھول کر بھی نشہ کرو گے تو رو پڑو گے

بہت ہی کانٹوں بھری ڈگر ہے نہ ختم ہو جو یہ وہ سفر ہے
جہاں میں سچ کی ڈگر پہ ہیراؔ چلا کرو گے تو رو پڑو گے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام