نہ خوشی اچھی ہے اے دل نہ ملال اچھا ہے

غزل| جلیلؔ مانک پوری انتخاب| بزم سخن

نہ خوشی اچھی ہے اے دل نہ ملال اچھا ہے
یار جس حال میں رکھے وہی حال اچھا ہے
ابھی غصّے سے وہ شوخ آگ ہوا جاتا ہے
کہہ دے اتنا کوئی پریوں کا جمال اچھا ہے
مشتری دل کا یہ کہہ کہہ کے بنایا ان کو
چیز انوکھی ہے نئی جنس ہے مال اچھا ہے
کیا مزہ ہو جو تمہیں دیکھ لے اک دن ناصح
اور ہم جا کے یہ پوچھیں کہو حال اچھا ہے
داغ دیکھا ہے جو دل میں تو اسے پھیرتے ہیں
کہتے ہیں ہم نے یہ جانا تھا کہ مال اچھا ہے
طلبِ بوسہ پہ مجھ کو تو برا کہتے ہو
اور میں بھی جو کہوں دل کا سوال اچھا ہے
اور بیمار بنائیں گے دکھا کر آنکھیں
جب تک آتے نہیں وہ دیکھنے حال اچھا ہے
کیوں کہوں ان سے کہ دل لے کے مجھے دو بوسہ
آپ وہ دام لگائیں گے جو مال اچھا ہے
کوستے گو ہیں مجھے یاد تو کر لیتے ہیں
میرے حق میں تو صفائی سے ملال اچھا ہے
داغِ دل جس سے چمک جائیں وہ نالہ بہتر
جس سے رونق ہو چمن کی وہ نہال اچھا ہے
آنکھ سے دیکھتے جاتے ہیں کہ حالت ہے خراب
اور منہ سے کہے جاتے ہیں کہ حال اچھا ہے
بوسہ یوں مانگوں کہ وہ آ کے مزے میں یہ کہیں
مانگے جا اے مرے سائل یہ سوال اچھا ہے
آج سنتا ہوں خبر لیں گے وہ بیماروں کی
اب برا بھی ہے اگر تو مرا حال اچھا ہے
یار تک روز پہنچتی ہے برائی میری
رشک ہوتا ہے کہ مجھ سے مرا حال اچھا ہے
رشک ہے یاد سے بھی اپنی کہ وہ کہتے ہیں
مجھ سے کیا واسطہ بس میرا خیال اچھا ہے
اپنی آنکھیں نظر آتی ہیں جو اچھی ان کو
جانتے ہیں مرے بیمار کا حال اچھا ہے

روز ملتا ہے گلے ایک بتِ مہ پارہ جلیلؔ
روز ہم عید مناتے ہیں یہ سال اچھا ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام