بات ساقی کی نہ ٹالی جائے گی

غزل| جلیلؔ مانک پوری انتخاب| بزم سخن

بات ساقی کی نہ ٹالی جائے گی
کر کے توبہ توڑ ڈالی جائے گی
وہ سنورتے ہیں مجھے اس کی ہے فکر
آرزو کس کی نکالی جائے گی
دل لیا پہلی نظر میں آپ نے
اب ادا کوئی نہ خالی جائے گی
تیغِ قاتل سے گلے مل لیں گے آج
حسرتِ دل یوں نکالی جائے گی
آتے آتے اُن کوآئے گا خیال
جاتے جاتے بے خیالی جائے گی
پڑ گئی چہرے پہ میری چشمِ شوق
اب نقاب اُن سے نہ ڈالی جائے گی
کیا کہوں دل توڑتے ہیں کس لئے
آرزو شاید نکالی جائے گی
جان لی تم نے ہمیں شکوہ نہیں
جانتے تھے جانے والی جائے گی
جو تجھے دیکھے اُس سے بعد مرگ
آنکھ حوروں پر نہ ڈالی جائے گی
دل تو نذرانے میں بوسے کے گیا
کہتے ہیں قیمت جُدا لی جائے گی
گر یہی نظارہ بازی کا ہے شوق
باغ سے نرگس نکالی جائے گی
دیکھتے ہیں غور سے میری شبیہ
شاید اُس میں جان ڈالی جائے گی
فصلِ گل آئی جنوں اُچھلا جلیلؔ
اب طبیعت کیا سنبھالی جائے گی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام