بول اٹھے سب کیوں کھلا کیوں کر کھلا

غزل| کلیم احمد عاجزؔ انتخاب| بزم سخن

بول اٹھے سب کیوں کھلا کیوں کر کھلا
ہم غریبوں کا جہاں بستر کھلا
خانہ ویرانی کو سب کچھ سونپ کر
چھوڑ آئے ہیں ہم اپنا گھر کھلا
چادرِ اوقات کی تنگی نہ پوچھ
پاؤں جب ہم نے چھپایا سر کھلا
تجربوں کا سلسلہ ہے زندگی
ہر قدم پر اک نیا دفتر کھلا
دشمنوں کی کیا خصوصیت کہ اب
دوست بھی رکھنے لگے خنجر کھلا
راہ میخانے کی اُن پر بند ہے
جن پہ رازِ بادہ و ساغر کھلا
گرچہ پانی تھا شہیدوں کا لہو
رنگ کتنا تیرے دامن پر کھلا
شاعری فنکار کی شمشیر ہے
اکثر اس تلوار کا جو ہر کھلا
لوگ کہتے ہیں کہ عاجزؔ کی غزل
پھول پوشیدہ ہے اور پتھر کھلا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام