ہم نشیں! آ ذرا دل ۔۔ بھاگلپور فسادات سے متاثرہ ایک نظم

نظم| کلیم احمد عاجزؔ انتخاب| بزم سخن

چند دن سے تھے نہایت ہی پس و پیش میں ہم
چپ ہی رہ جائیں کہ اظہارِ خیالات کریں
پھر یہ سوچا کہ پس و پیش کا اب وقت نہیں
ہم نشیں! آ ذرا دل کھول کے کچھ بات کریں
ہم نشیں ! یاد ہے تجھ کو کہ ترے یار تھے ہم
تیری ہی زلفوں میں صدیوں سے گرفتار تھے ہم
سایۂ گل تھے ترے چاہنے والوں کے لئے
تیرے دشمن کے لئے برہنہ تلوار تھے ہم
تو اگر شمع تھا ہم تیرے لئے تھے فانوس
تو مکیں تھا تو مکاں کے در و دیوار تھے ہم
وید و قرآن کا ایک ساتھ نکالا تھا جلوس
قشقہ ماتھے پہ لگانے کو بھی تیار تھے ہم
جب نہ تھا کوئی ترے گھر کو بسانے والا
تیرے غم خوار ترے دوست ترے یار تھے ہم
تجھ کو سج دھج کے بڑھا دیتے تھے قیمت تیری
تیرے دستار تھے ہم طرۂ دستار تھے ہم
مجرمِ جرمِ وفا تم بھی تھے ہم بھی تھے مگر
وقت آیا تو سپردِ رسن و دار تھے ہم
معرکہ جب بھی پڑا بڑھ کے عَلم ہم نے لیا
تم رہے قافلے میں قافلہ سالار تھے ہم
حسن تھا حسن پرستی کا یہ ماحول نہ تھا
ایسا ماحول تجھے پہلے پہل ہم نے دیا
ایک سے ایک چمن تھا چمن آرائی نہ تھی
تھا عمل پاس ترے حسنِ عمل ہم نے دیا
تجھ میں پیدا کیا ہم نے نیا احساسِ جمال
تیری زلفوں میں نئے طرز سے بل ہم نے دیا
ہم نے تعمیر کیا ترے لئے لال قلعہ
تیرے ماتھے کے لئے تاج محل ہم نے دیا
بات کرنے کو دی اردوئے معلیٰ ہم نے
گنگنانے کے لئے سازِ غزل ہم نے دیا
زندگی گذری تجھے خونِ جگر دیتے ہوئے
اور تری زلفوں کو اشکوں کے گہر دیتے ہوئے
تیری محفل میں صراحی کے لئے خم کے لئے
گردنیں دیتے ہوئے کاسۂ سر دیتے ہوئے
آج جب صاحبِ جامِ مئے سر جوش ہے تو
اتنا بد مست ہے سرشار ہے مدہوش ہے تو
اپنے محسن کا لہو کر لیا شامل اس میں
سچ تو یہ ہے بڑا احسان فراموش ہے تو
خوں سے جب تک نہ لبالب ترا چلّو ہوگا
کیا تجھے لطفِ مئے و جام نہیں آئے گا
کیا ہمیں رہ گئے ہیں پیاس بجھانے کے لئے
کیا کوئی اور ترے کام نہیں آئے گا
پہلوئے دوست میں جب تک نہ چبھوئے خنجر
ہم نشیں کیا تجھے آرام نہیں آئے گا
ہم بغل گیر تمہارے ہیں غنیمت سمجھو
ہم گر اٹھ جائیں گے پہلو سے تو پچھتاؤ گے
مل کے رہنے کا سبق ہم نے دیا ہے تم کو
تم تو بکھرے ہوئے تھے اور بکھر جاؤ گے
یہ نہیں ہے کہ بغاوت مجھے اکساتی نہیں
یا حمیت رگِ غیرت مری پھڑکاتی نہیں
یا مجھے چھیننی شمشیرِ جفا آتی نہیں
بات یہ ہے کہ مری خوئے وفا جاتی نہیں
کب سے آئینہ دکھاتی ہے تجھے میری غزل
دیکھنا یہ ہے کہ کب تک تجھے شرم آتی نہیں
تم عمل پر نظر ثانی اگر کر لو گے
ہم بھی کوتاہیوں سے صرفِ نظر کرلیں گے
پیارے ہم دوست تمہارے ہیں نمک خوار نہیں
تم جو منہ پھیروگے ہم رخ بھی ادھر کر لیں گے
دردمندانِ محبت کا یہی گہنا ہے
ہم نے زخموں کو بھی زیور کی طرح پہنا ہے
رنج و غم تھوڑا بہت سب کو یہاں سہنا ہے
عمر بھر پھولوں کے بستر پہ کسے رہنا ہے
اپنے کرتوت کے گھٹری لئے اٹھ جائیں گے
نہ ہمیں رہنا ہے پیارے نہ تمہیں رہنا ہے
نہ ہماری نہ تمہاری ہے خدا کی یہ زمیں
آج ہم تم ہیں کل اوروں کو یہاں رہنا ہے
نقش ہے ہر در و دیوار پہ انجامِ غرور
تم بھی مغرور نہ ہو ہم کو یہی کہنا ہے
ہم نے اک عمر گذاری کہ بقولِ غالبؔ
آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہونے تک
اور جیتے ہیں تری زلف کے سر ہونے تک
اور سر تک ہی نہیں تا بہ کمر ہونے تک
اور اس قطرۂ ناچیز پہ سب کچھ گذرا
جو بھی کچھ گذرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
ہم بھی اب جبر پہ آمادہ نہ ہوجائیں کہیں
صبر ہوتا ہے تو ہے ائے دوست مگر ہونے تک
دوست بن دوست نہ بننے میں بہت گھاٹا ہے
آ کہ پھر دوستی کی آب و ہوا تازہ کریں
آ کہ پھر پھیل چلے رنگِ چمن بوئے چمن
آ کہ پھر رسمِ گل و بادہ صبا تازہ کریں
آ کہ پھر درد کا ٹوٹا ہوا رشتہ جوڑیں
آ کہ پھر وعدہ و پیمانِ وفا تازہ کریں
درد مندی سے بڑھائے ہوئے پھر ہاتھ ہیں ہم
تو بھی گر ہاتھ بڑھا دے تو ترے ساتھ ہیں ہم


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام