پریشاں ہو کے ان دیکھی مسافت اوڑھ لیتے ہیں

غزل| سلیم قیصرؔ انتخاب| بزم سخن

پریشاں ہو کے ان دیکھی مسافت اوڑھ لیتے ہیں
پرندے اجنبی موسم میں ہجرت اوڑھ لیتے ہیں
حصارِ تجربہ سے ہم نکلنے ہی نہیں پاتے
ہر اک لمحہ کوئی تازہ ضرورت اوڑھ لیتے ہیں
دھنک احساس کی لفظوں میں اپنا رنگ بھرتی ہے
تخیل کے نئے پیکر علامت اوڑھ لیتے ہیں
ہم اپنی آگ میں جل بجھ کے جانے کیمیا کب ہوں
چلو کچھ دن کرائے کی تمازت اوڑھ لیتے ہیں

نہ جانے کیوں ہمارے مسخ چہرے دیکھ کر قیصرؔ
نظر کے آئینے رنگِ حقارت اوڑھ لیتے ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام