کون کہتا ہے کہ بے نام و نشاں ہو جاؤں گا

غزل| پریمؔ واربرٹنی انتخاب| بزم سخن

کون کہتا ہے کہ بے نام و نشاں ہو جاؤں گا
ڈوب کر میں قطرے قطرے سے عیاں ہو جاؤں گا
دیکھنا چھیڑوں گا مقتل میں بھی سازِ سرمدی
عشق پر جب ظلم ہوگا نغمہ خواں ہو جاؤں گا
موتی بن کر سیپیوں میں آپ روشن ہیں اگر
میں بھی گیلی ریت پر گوہر فشاں ہو جاؤں گا
ساری دنیا سے جدا ہے میری فطرت کا مزاج
جس قدر سمٹوں گا اتنا بے کراں ہو جاؤں گا
میرے ہوتے زندگی بے رنگ ہو سکتی نہیں
نبضِ عالم میں لہو بن کر رواں ہو جاؤں گا
جب مؤرخ میری ہستی پر اٹھائے گا قلم
انتہا یہ ہے کہ تیری داستاں ہو جاؤں گا
حسرتوں کی منزلیں روئیں گی میرے حال پر
ایسے آوارہ مسافر کا نشاں ہو جاؤں گا
یہ بہت دشوار ہے لیکن تمہارے واسطے
میں تمہارے اور اپنے درمیاں ہو جاؤں گا
چہچہاؤں گا بہاروں میں پرندوں کی طرح
پتھروں کی وادیوں میں بے زباں ہو جاؤں گا
گلستاں فانی سہی تم ہو مگر خوشبو کا خواب
میں تمہارا گیت بن کر جاوداں ہو جاؤں گا

جب سمندر میرے سینے میں سما جائے گا پریمؔ
ہر بھنور کی آبرو کا امتحاں ہو جاؤں گا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام