ہر طرف پھیلی ہوئی ہے بدگمانی خیر ہو

غزل| ابن حسؔن بھٹکلی انتخاب| بزم سخن

ہر طرف پھیلی ہوئی ہے بدگمانی خیر ہو
ایک جیسی ہے ہر اک گھر کی کہانی خیر ہو
حسرتیں اتنی زیادہ ہیں کہ بس اب کیا کہیں
ہم بھی فانی اور یہ دنیا بھی فانی خیر ہو
کیا خبر کب سانس کہہ دے زندگی کو الوداع
ہو رہے ہیں حادثاتِ ناگہانی خیر ہو
اک طرف جلوہ نمائی اک طرف عریاں نظر
اور ان جلوؤں کی یہ آتش فشانی خیر ہو
روز اپنی سوچ کی تجدید کرتا ہوں مگر
یاد آتی ہیں وہی باتیں پرانی خیر ہو
جانے کیا ہے یہ نوازش ہے کہ سازش ہے کوئی
ہر کوئی کرتا ہے مجھ پر مہربانی خیر ہو

جو سخن فہمی کے قابل ہی نہیں ابنِ حسنؔ
کر رہے ہیں وہ بھی میری مدح خوانی خیر ہو


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام