کیا چیز تھی کیا چیز تھی ظالم کی نظر بھی

غزل| جگرؔ مراد آبادی انتخاب| بزم سخن

کیا چیز تھی کیا چیز تھی ظالم کی نظر بھی
اف کر کے وہیں بیٹھ گیا دردِ جگر بھی
ہوتی ہی نہیں کم شبِ فرقت کی سیاہی
رخصت ہوئی کیا شام کے ہمراہ سحر بھی؟
یہ مجرمِ الفت ہے تو وہ مجرمِ دیدار
دل لے کے چلے ہو تو لیے جاؤ نظر بھی
کیا دیکھیں گے ہم جلوۂِ محبوب کہ ہم سے
دیکھی نہ گئی دیکھنے والے کی نظر بھی
مایوسِ شبِ ہجر نہ ہو اے دلِ بے تاب!
اللہ دکھائے گا تو دیکھیں گے سحر بھی
جلووں کو ترے دیکھ کے جی چاہ رہا ہے
آنکھوں میں اتر آئے مرا کیفِ نظر بھی
واعظ نہ ڈرا مجھ کو قیامت کی سحر سے
دیکھی ہے ان آنکھوں نے قیامت کی سحر بھی
اُس دل کے تصدق جو محبت سے بھرا ہو
اُس درد کے صدقے جو ادھر بھی ہو اُدھر بھی

ہے فیصلۂ عشق ہی منظور تو اٹھئے
اغیار بھی موجود ہیں حاضر ہے جگرؔ بھی​


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام