جو اُدھر ہے مجھے وہ اِدھر چاہیے

نعت| ابن حسؔن بھٹکلی انتخاب| بزم سخن

جو اُدھر ہے مجھے وہ اِدھر چاہیے
استطاعت نہیں ہے مگر چاہیے
اے مدینے کے زائر! دعا دے مجھے
میں مسافر ہوں زادِ سفر چاہیے
جس گزر گاہ سے وہ گزرتے رہے
بس مجھے بھی وہی رہگزر چاہیے
یوں ہی بڑھتا رہے میرا شوقِ سفر
ہم سفر کوئی آشفتہ سر چاہیے
آہ! اللہ طیبہ بہت دور ہے
یہ مسافت بھی کچھ مختصر چاہیے
جس کو چاہے مبارک ہو یہ گلستاں
مجھ کو خوشبوئے خیر البشر چاہیے
جب کہ احساس ہے میں گنہگار ہوں
پھر بھی ضد ہے مدینے میں گھر چاہیے
وائے حسرت مری حیثیت ہی نہیں
اور طلب خوب سے خوب تر چاہیے
نعت لکھنے کا موقع ملا ہے مجھے
وجد آور سرود و اثر چاہیے
میرے لہجے میں تاثیر بالکل نہیں
قلبِ مضطر و سوزِ جگر چاہیے
تب کہیں جا کے طیبہ نظر آئے گا
مجھکو آنکھیں بھی اشکوں سے تر چاہیے
دھوپ بادل ہوا پھول شبنم شفق
سایہ افگن گھنیرے شجر چاہیے
سبز پُرکیف منظر حسیں تتلیاں
جگمگاتے ستارے قمر چاہیے
ایک ٹھنڈی مہکتی ہوئی شام اور
اک سلگتی ہوئی دوپہر چاہیے
تاکہ ہر لفظ محسوس کر کے لکھوں
روح افزا نسیمِ سحر چاہیے
نعت گوئی سعادت ہے میرے لئے
اب قلم بھی مجھے معتبر چاہیے
ابنِ ثابت کا مدّاح ابنِ حسؔن
یعنی حسّان جیسا ہنر چاہیے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام