مجھ کو نہ دل پسند نہ وہ بے وفا پسند

غزل| بیخودؔ دہلوی انتخاب| بزم سخن

مجھ کو نہ دل پسند نہ وہ بے وفا پسند
دونوں ہیں خود غرض مجھے دونوں ہیں نا پسند
یہ دل وہی تو ہے جو تمہیں اب ہے نا پسند
معشوق کر چکے ہیں جسے بارہا پسند
جنسِ وفا کو کرتے ہیں اہلِ وفا پسند
دشمن کو کیا تمیز ہے دشمن کی کیا پسند
جنت کی کوئی حور نظر پر چڑھی نہیں
دنیا میں مجھ کو ایک پری زاد تھا پسند
روندی کسی نے پائے حنائی سے میری نعش
تھی زندگی میں مجھ کو جو بوئے حنا پسند
وہ بد نصیب ہے جسے آیا پسند تو
قسمت تو اس کی ہے جسے تو نے کیا پسند
چڑتے ہیں وہ سوال سے یہ ہم سمجھ گئے
ہے اس لئے انہیں دلِ بے مدّعا پسند
صورت بھی پیشِ چشم ہے سیرت بھی پیشِ چشم
دم بھر میں تو پسند ہے دم بھر میں نا پسند
تجھ کو غرورِ زہد ہے شرمِ گنہ مجھے
زاہد کسے خبر کہ خدا کو ہو کیا پسند
چوٹیں چلیں گی خوب برابر کی جوڑ ہے
تو ہے ادا شناس تو میں ہوں ادا پسند
ہر پھر کے ان کی آنکھ عدو سے لڑے نہ کیوں
فتنہ کو کرتی ہے نگہ فتنہ زا پسند
میں خود سکھا رہا ہوں ستم کی ادا انہیں
دنیا میں کب ہوا کوئی مجھ سا جفا پسند
رکھ دیں گے آئینے کے برابر ہم اپنا دل
یا تو یہ نا پسند ہوا ان کو یا پسند
کس درجہ سادہ لوح ہیں عاشق مزاج بھی
جو ڈھب پہ چڑھ گیا وہ انہیں آ گیا پسند
میرا ہی کیا قصور یہ مجھ پر ستم ہے کیوں
آنکھوں نے دیکھا آپ کو دل نے کیا پسند
انکار سن چکے ہیں طلب گار کیوں بنیں
ملتا نہیں کوئی تو ہے بے فائدہ پسند

بیخودؔ تو مر مٹے جو کہا اس نے ناز سے
اک شعر آ گیا ہے ہمیں آپ کا پسند


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام