دو گھڑی بیٹھے تھے زلفِ عنبریں کی چھاؤں میں

غزل| فارغؔ بخاری انتخاب| بزم سخن

دو گھڑی بیٹھے تھے زلفِ عنبریں کی چھاؤں میں
چبھ گیا کانٹا دلِ حسرت زدہ کے پاؤں میں
کم نہیں ہیں جب کہ شہروں میں بھی کچھ ویرانیاں
کس توقع پر کوئی جائے گا اب صحراؤں میں
کچی کلیاں پکی فصلیں سر چھپائیں گی کہاں
آگ شہروں کی لپک کر آ رہی ہے گاؤں میں
زخمِ نظارہ ہیں جسموں کی برہنہ ٹہنیاں
ایسے پت جھڑ میں کھلیں گے پھول کیا آشاؤں میں
کیا کہوں طولِ شبِ غم پل میں صدیاں ڈھل گئیں
وقت یوں گزرا کہ جیسے آبلے ہوں پاؤں میں
زندگی میں ایسی کچھ طغیانیاں آتی رہیں
بہہ گئیں ہیں عمر بھر کی نیکیاں دریاؤں میں

جلتے موسم میں کوئی فارغؔ نظر آتا نہیں
ڈوبتا جاتا ہے ہر اک پیڑ اپنی چھاؤں میں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام