یہ تو سچ ہے کہ صفیؔ کی نہیں نیت اچھی

غزل| صفؔی اورنگ آبادی انتخاب| بزم سخن

یہ تو سچ ہے کہ صفیؔ کی نہیں نیت اچھی
ہاں مگر پائی ہے ظالم نے طبیعت اچھی
کیا ہوا آپ نے پائی ہے جو صورت اچھی
آدمی وہ ہے کہ جس کی ہو طبیعت اچھی
آج وہ پوچھنے آئے ہیں ہمارا مطلب
سن لیا تھا کہیں مطلب کی محبت اچھی
خوب صورت ہے وہی جس پہ زمانہ ریجھے
یوں تو ہر ایک کو ہے اپنی ہی صورت اچھی
کچھ بھی ہو ایک تمنا تو بندھی رہتی ہے
تجھ سے سو درجہ ترے ملنے کی حسرت اچھی
نہیں اپنے میں کوئی چاہنے والا تیرا
ڈال دی ڈالنے والوں نے عداوت اچھی
کوئی ارمان نہیں ہے تو فقط بیتابی
وصل سے تیرے ستم گر تری فرقت اچھی
ان کے آتے ہی بدل جاتے ہیں تیرے تیور
اے صفیؔ چاہیے انسان کی نیت اچھی



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام