تری نظر کے اشاروں سے کھیل سکتا ہوں

غزل| ساغرؔ صدیقی انتخاب| بزم سخن

تری نظر کے اشاروں سے کھیل سکتا ہوں
جگر فروز شراروں سے کھیل سکتا ہوں
تمہارے دامنِ رنگیں کا آسرا لے کر
چمن کے مست نظاروں سے کھیل سکتا ہوں
کسی کے عہدِ محبت کی یاد باقی ہے
بڑے حسین سہاروں سے کھیل سکتا ہوں
مقامِ ہوش و خرد انتقامِ وحشت ہے
جنوں کی راہ گزاروں سے کھیل سکتا ہوں
مجھے خزاں کے بگولے سلام کرتے ہیں
حیا فروش چناروں سے کھیل سکتا ہوں
شراب و شعر کے دریا میں ڈوب کر ساغرؔ
سرور و کیف کے دھاروں سے کھیل سکتا ہوں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام