اب نہ وہ ہم ہیں نہ وہ پیار کی صورت تیری

غزل| صفؔی اورنگ آبادی انتخاب| بزم سخن

اب نہ وہ ہم ہیں نہ وہ پیار کی صورت تیری
نہ وہ حالت ہے ہماری نہ وہ حالت تیری
دیکھ لی دیکھ لی بس ہم نے طبیعت تیری
ہو نہ دشمن کے بھی دشمن کو محبت تیری
کیا غرض اس سے ہو دشمن پہ عنایت تیری
ہم تو جیتے ہیں فقط دیکھ کے صورت تیری
یہ بھی آ جاتی ہے جب دیکھ لی صورت تیری
سچ ہے الفت نہیں منہ دیکھے کی الفت تیری
ترکِ الفت ہی نہیں قطعِ تعلق بھی کیا
پھر بھی جاتی نہیں ظالم یہ محبت تیری
دخل ہوگا نہ کبھی جس میں گنہ گاروں کا
ہوگی اے واعظِ کج فہم وہ جنت تیری
چاہنے والوں کا ہنگامہ کسی دن ہوگا
ایک دن تجھ کو رلائے گی یہ صورت تیری
یہ تڑپ یہ تری فریاد یہ حسرت اے دل
کاش آ جائے مری جان پہ آفت تیری
پہلے کچھ اور ہی تیور تھے یہ تیور تیرے
پہلے کچھ اور ہی صورت تھی یہ صورت تیری
دیکھنے والوں کی اک بھیڑ رہا کرتی تھی
اف رے وہ حسن ترا ہائے وہ صورت تیری
اس پہ حیرت ہے بڑی مجھ کو تعجب ہے بہت
غیر پھر غیر کے دل میں ہو محبت تیری
آدمی کی تجھے پہچان نہیں اے ظالم
ہم تو کرتے ہیں ترے منہ پہ شکایت تیری
تجھ کو دلبر جو بنایا تو بنایا ہم نے
ورنہ معلوم ہے دنیا کو حقیقت تیری
جان دے دی نہ اگر میں نے تو کچھ بھی نہ کیا
آپ کہتے ہی رہیں کیا ہے حقیقت تیری

چین آتا ہی نہ تھا تجھ کو حسینوں کے بغیر
اے صفیؔ کیا ہوئی اگلی وہ طبیعت تیری


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام