ہونٹوں پہ ہنسی آنکھ میں تاروں کی لڑی ہے

غزل| قابلؔ اجمیری انتخاب| بزم سخن

ہونٹوں پہ ہنسی آنکھ میں تاروں کی لڑی ہے
وحشت بڑے دلچسپ دوراہے پہ کھڑی ہے
دل رسم و رہِ شوق سے مانوس تو ہو لے
تکمیلِ تمنا کے لئے عمر پڑی ہے
چاہا بھی اگر ہم نے تری بزم سے اٹھنا
محسوس ہوا پاؤں میں زنجیر پڑی ہے
آوارہ و رسوا ہی سہی ہم منزلِ شب میں
اک صبحِ بہاراں سے مگر آنکھ لڑی ہے
کیا نقش ابھی دیکھئے ہوتے ہیں نمایاں
حالات کے چہرے سے ذرا گرد جھڑی ہے
کچھ دیر کسی زلف کے سائے میں ٹھہر جائیں
قابلؔ غمِ دوراں کی ابھی دھوپ کڑی ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام