غم چھیڑتا ہے سازِ رگِ جاں کبھی کبھی

غزل| قابلؔ اجمیری انتخاب| بزم سخن

غم چھیڑتا ہے سازِ رگِ جاں کبھی کبھی
ہوتی ہے کائنات غزل خواں کبھی کبھی
اس حسنِ اتفاق کی تصویر کھینچ لو
ہوتے ہیں ایک ساحل و طوفاں کبھی کبھی
ہوتے ہیں شہرِ گل میں حوادث تو روز روز
رکتا ہے کاروانِ بہاراں کبھی کبھی
کیسا شراب خانہ کہاں کا صنم کدہ
کعبہ میں لُٹ گیا ہے مسلماں کبھی کبھی
ہم بیکسوں کی بزم میں آئے گا اور کون
آ بیٹھتی ہے گردشِ دوراں کبھی کبھی
کچھ اور بڑھ گئی ہے اندھیروں کی زندگی
یوں بھی ہوا ہے جشنِ چراغاں کبھی کبھی
احباب کی بلندیٔ اخلاق دیکھ کر
دشمن بھی ہوگیا ہے پشیماں کبھی کبھی
اے دولتِ سکوں کے طلبگار دیکھنا
شبنم سے جل گیا ہے گلستاں کبھی کبھی

قابلؔ مری نگاہ کے چرچے ہیں دور دور
آتا ہے بت کدے میں مسلماں کبھی کبھی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام