تم سے ملتے ہی بچھڑنے کے وسیلے ہو گئے

غزل| شاہدؔ کبیر انتخاب| بزم سخن

تم سے ملتے ہی بچھڑنے کے وسیلے ہو گئے
دل ملے تو جان کے دشمن قبیلے ہو گئے
آج ہم بچھڑے ہیں تو کتنے رنگیلے ہو گئے
میری آنکھیں سرخ تیرے ہاتھ پیلے ہو گئے
اب تری یادوں کے نشتر بھی ہوئے جاتے ہیں کند
ہم کو کتنے روز اپنے زخم چھیلے ہو گئے
کب کی پتھر ہو چکی تھیں منتظر آنکھیں مگر
چھو کے جب دیکھا تو میرے ہاتھ گیلے ہو گئے

اب کوئی امید ہے شاہدؔ نہ کوئی آرزو
آسرے ٹوٹے تو جینے کے وسیلے ہو گئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام