میں گنہ گار اور ان گنت پارسا چار جانب سے یلغار کرتے ہوئے

غزل| مظفرؔ حنفی انتخاب| بزم سخن

میں گنہ گار اور ان گنت پارسا چار جانب سے یلغار کرتے ہوئے
جیسے شب خون میں بوکھلا کر اٹھیں لوگ تلوار تلوار کرتے ہوئے
اڑ رہی تھی وہاں گرد تشکیک کی آندھیاں تیز تھیں طنز و تضحیک کی
راستے میں پڑا نیک نامی کا پل خوف آیا جسے پار کرتے ہوئے
وہ خراشیں دکھاتے رہے ہاتھ کی سنگ باری کے دوران آئیں تھی جو
ہم ادھر زخمِ سر کو چھپاتے رہے اور تزئینِ دستار کرتے ہوئے
بے رخی کی ہوائیں موافق نہ تھیں کیسے اخلاص کی کونپلیں پھوٹتیں
چار آنسو زمینوں کو نم کر گئے سرد لفظوں کو بے کار کرتے ہوئے
پھر چھٹی حس سے پرچے لگائے بہت آئینے عاقبت نے دکھائے بہت
بھائی نے آج کیوں مجھ کو دیکھا نہیں تاج پوشی کا دربار کرتے ہوئے
یہ زمانہ لگا ہے کہ اب جسم میں خار کے واسطے قطرۂ خوں نہیں
ایک وہ وقت بھی تھا کہ چلتے تھے ہم راستے بھر کو گلنار کرتے ہوئے

طرزِ تعمیر کے کچھ نئے زاویے عصرِ نو کو مظفرؔ نے بخشے تو ہیں
اپنی ہی ذات پر وار کرتے ہوئے اپنی ہستی کو مسمار کرتے ہوئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام