تو کیا یہ طے ہے کہ اب عمر بھر نہیں ملنا

غزل| سرورؔ بارہ بنکوی انتخاب| بزم سخن

تو کیا یہ طے ہے کہ اب عمر بھر نہیں ملنا
تو پھر یہ عمر بھی کیوں تم سے گر نہیں ملنا
یہ کون چپکے سے تنہائیوں میں کہتا ہے
ترے بغیر سکوں عمر بھر نہیں ملنا
چلو زمانے کی خاطر یہ جبر بھی سہہ لیں
کہ اب ملے تو کبھی ٹوٹ کر نہیں ملنا
رہِ وفا کے مسافر کو کون سمجھائے
کہ اس سفر میں کوئی ہم سفر نہیں ملتا

جدا تو جب بھی ہوئے دل کو یوں لگا جیسے
کہ اب گئے تو کبھی لوٹ کر نہیں ملنا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام