آنکھ چھپکاتے ہی تبدیلی ہر اک منظر میں تھی

غزل| مظفرؔ حنفی انتخاب| بزم سخن

آنکھ چھپکاتے ہی تبدیلی ہر اک منظر میں تھی
اک ذرا کھولا دریچہ اور آندھی گھر میں تھی
موت جیسے ایک لمبے راستے کا سنگِ میل
زندگی جیسے گرہ کوئی میرے شہپر میں تھی
پر بریدہ آب دیدہ پھول کے غم سے نڈھال
یہ وہی خوشبو ہے شہرت جس کی بستی بھر میں تھی
اہلِ کشتی مخمصے میں ساحل و گرداب کے
سرفرازی بادباں میں عافیت لنگر میں تھی
وہ ہر اک ٹھوکر پہ اس کا کانچ سا چھن بولنا
سر کے ٹکرانے سے کتنی روشنی پتھر میں تھی
اب وہ عالم ہے کہ شانے جھک رہے ہیں بار سے
اے دریغا! سرکشی کتنی ہمارے سر میں تھی

بین کرتی تھی تاثر پر مظفرؔ کی غزل
خامشی گریہ کناں الفاظ کے لشکر میں تھی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام