سوزِ غم سے اشک کا ایک ایک قطرہ جل گیا

غزل| عزیزؔ لکھنوی انتخاب| بزم سخن

سوزِ غم سے اشک کا ایک ایک قطرہ جل گیا
آگ پانی میں لگی ایسی کہ دریا جل گیا
وقتِ دیدار آنکھ کا ہر ایک پردہ جل گیا
دیکھئے سب ساز و سامانِ تماشا جل گیا
تھی رگِ برقِ جہندہ نبضِ بیمارِ فراق
دیکھتے ہی دیکھتے دستِ مسیحا جل گیا
الحذر اب دور مجھ سے بیٹھتا ہے چارہ گر
زخم پر رکھنے نہ پایا تھا کہ پھاہا جل گیا
دیکھ کر برقِ تجلی اڑ گئے موسیٰ کے ہوش
جلوہ گاہِ ناز کا جس وقت پردہ جل گیا
دل بھی تھا اور دل میں دنیا بھرکے سامانِ نشاط
تم سمجھتے تھے میں سوزِ غم سے تنہا جل گیا
جب کوئی قطرہ گدازِ دل کا آیا آنکھ تک
رونے والے بس سمجھ لینا یہ چھالا جل گیا
سوزِ الفت کا یہ نقطہ تھا بطورِ یاد داشت
دل بھی جل جائے گا جب نقشِ سویدا جل گیا
کیا مٹایا قلبِ خوں گشتہ کو آہِ گرم نے
اس قدر اٹھا بخار آخر کہ دریا جل گیا
آبلہ پہلے پڑا پھر زخم اس کے بعد داغ
مختصر یہ ہے یونہی سب دل ہمارا جل گیا
ہو حجاب قدس کے دونوں طرف ایسے حسیں
خرقِ عادت گر نہیں پھر کیوں نہ پردہ جل گیا
دیکھتے ہی دیکھتے ٹوٹا طلسمِ عقل و ہوش
وہ گرے موسیٰ و ہ دیکھو طورِ سینا جل گیا
ہر بنِ موُ سے نکلتا ہے دھواں تا چند ضبط
جل گیا ائے سوزِ پنہاں میں سراپا جل گیا
آگ تو دل کی بجھا لینے دو پھر کچھ پوچھنا
ہوش کس کو جو بتائے کیا رہا کیا جل گیا

داغِ الفت میں لگا دی آگ سب دل میں عزیزؔ
ایک چنگاری سے سارا گھر ہمارا جل گیا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام