آنکھوں کے آس پاس ہوا ارتعاش پھر

غزل| حمیراؔ رحمان انتخاب| بزم سخن

آنکھوں کے آس پاس ہوا ارتعاش پھر
اور آئینے پہ آنے لگی ہے خراش پھر
تازہ کوئی قرار کوئی حرفِ گفتگو
بکھرے ہوئے ہیں سوچ کی بازی کے تاش پھر
برسوں لگے پروں پہ میرے ماہرین کو
اڑتے ہی یہ جہاز ہوا پاش پاش پھر
پہچان میری گھر سے نہیں ہجرتوں سے ہے
یہ المیہ بھی ہونے لگا مجھ پہ فاش پھر
چیخیں ہیں اور صحن میں بارود کا غبار
آئی ہے جنگ سے کسی بیٹے کی لاش پھر
یہ اضطراب کر گیا بنجر توانا جسم
ان بستیوں کو کھا گئی فکرِ معاش پھر

بے ابر آسماں سے نصیبوں کی فصل تک
آؤ کریں حمیراؔ نگینے تلاش پھر


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام