گورے گورے چاند سے منہ پر کالی کالی آنکھیں ہیں

غزل| آرزوؔ لکھنوی انتخاب| بزم سخن

گورے گورے چاند سے منہ پر کالی کالی آنکھیں ہیں
دیکھ کے جن کو نیند اڑ جائے وہ متوالی آنکھیں ہیں
منہ سے پلا کیا سرکانا اس بادل میں بجلی ہے
سوجھتی ہے ایسی ہی انہیں جو پھوٹنے والی آنکھیں ہیں
چاہ نے اندھا کر رکھا ہے اور نہیں تو دیکھنے میں
آنکھیں آنکھیں سب ہیں برابر کون نرالی آنکھیں ہیں
بے جس کے اندھیر ہے سب کچھ ایسی بات ہے اُس میں کیا
جی کا ہے یہ باؤلا پن یا بھولی بھالی آنکھیں ہیں

آرزوؔ اب بھی کھوٹے کھرے کو کر کے الگ ہی رکھ دیں گی
اُن کی پرکھ کا کیا کہنا ہے جو ٹکسالی آنکھیں ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام