اپنی وفا کا نہ ان کی جفاؤں کا ہوش تھا

غزل| اثرؔ لکھنوی انتخاب| بزم سخن

اپنی وفا کا نہ ان کی جفاؤں کا ہوش تھا
کیا دن تھے جب کہ دل میں محبت کو جوش تھا
صورت بھی دیکھے اور تری باتیں بھی سن سکے
گل چشمِ شوق بن کے طلب گار گوش تھا
ہر جلوہ ایک پردہ تھا ہر دل تھا اک حجاب
بیگانگی کا بزمِ تمنا میں جوش تھا
سازِ حیات بند تھا دم تھے رکے ہوئے
اس جلوہ گاہِ ناز میں جو تھا خموش تھا
ناکامیوں کی باغِ تمنا میں تھی بہار
گل ریز داغِ دل تھے جگر گل فروش تھا
دونوں کو اک نگاہ پہ قربان کر دیا
دل جان کا عذاب تھا سر بار دوش تھا

کی صرف ہم نے عمر سمجھنے میں رازِ عشق
طاعت گزار ہوتے کہاں اتنا ہوش تھا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام