جھپکی ذرا جو آنکھ جوانی گزر گئی

غزل| اثرؔ لکھنوی انتخاب| بزم سخن

جھپکی ذرا جو آنکھ جوانی گزر گئی
بدلی کی چھاؤں تھی ادھر آئی ادھر گئی
مشاطۂ بہار عجب گل کتر گئی
منہ بند جو کلی تھی کھلی اور سنور گئی
پیشِ جمالِ یار کرن آفتاب کی
شرما کے چاہتی تھی کہ پلٹے بکھر گئی
مل کے بھبھوت چہرے پہ تاروں کی چھاؤں کا
دھونی رمائے در پہ یہ کس کے سحر گئی
کیا جانے آنکھ مار کے کیا کہہ گئی شفق
پھولوں کی گود موجِ نسیم آ کے بھر گئی
سینے میں اور تاب دے شعلے کو شوق کے
سجدہ غلط اگر نہ تجلی نکھر گئی
تیری ہی جلوہ زار ہے دنیائے رنگ و بو
اے وائے وہ نظر جو حجابات پر گئی
اب ہاتھ ملتے ہیں کہ دمِ عرضِ ماجرا
کہنے کی بات دھیان سے کیسی اتر گئی

کچھ دن کی اور کشمکشِ زیست ہے اثرؔ
اچھی بری گزرنی تھی جیسی گزر گئی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام