بہلتے کس جگہ جی اپنا بہلانے کہاں جاتے

غزل| پیر سید نصیر الدین نصیؔر انتخاب| بزم سخن

بہلتے کس جگہ جی اپنا بہلانے کہاں جاتے
تری چوکھٹ سے اٹھ کر تیرے دیوانے کہاں جاتے
نہ واعظ سے کوئی رشتہ نہ زاہد سے شناسائی
اگر ملتے نہ رندوں کو تو پیمانے کہاں جاتے
خدا کا شکر شمع رخ لیے آئے وہ محفل میں
جو پردے میں چھپے رہتے تو پروانے کہاں جاتے
اگر ہوتی نہ شامل رسمِ دنیا میں یہ زحمت بھی
کسی نہ کس کی میت لوگ دفنانے کہاں جاتے
اگر کچھ اور بھی گردش میں رہتے دیدۂ ساقی
نہیں معلوم چکر کھا کے میخانے کہاں جاتے
خدا آباد رکھے سلسلہ اس تیری نسبت کا
وگرنہ ہم بھری دنیا میں پہچانے کہاں جاتے

نصیرؔ اچھا ہوا در مل گیا ان کا ہمیں ورنہ
کہاں رکتے کہاں تھمتے خدا جانے کہاں جاتے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام