دل خون ہو تو کیوں کر نہ لہو آنکھ سے برسے

غزل| پیر سید نصیر الدین نصیؔر انتخاب| سید ریّان

دل خون ہو تو کیوں کر نہ لہو آنکھ سے برسے
آخر کو تعلق ہے اسے دیدۂ تر سے
کچھ دیر تو اس قلبِ شکستہ میں بھی ٹھہرو
یوں تو نہ گزر جاؤ اس اجڑے ہوئے گھر سے
ہر موج ہے طوفانِ حوادث کی حدی خواں
مشکل ہے نکلنا مری کشتی کا بھنور سے
یہ حسن ، یہ شوخی ، یہ تبسم ، یہ جوانی
اللہ بچائے تمہیں بد بیں کی نظر سے
خورشید تو کیا غیرتِ خورشید ہوا ہے
وہ ذرہ جو ابھرا ہے تری راہ گزر سے
نکلی نہ جو دیدار کی حسرت تو یہ ہو گا
سر پھوڑ کے مر جائیں گے دیوار سے در سے
سو رنج ہیں سو شکوہ شکایات ہیں لیکن
مجبور ہیں کچھ کہتے نہیں آپ کے ڈر سے
صیاد! خدا خیر کرے اہلِ چمن کی
دیکھے ہیں فضاؤں میں کچھ اڑتے ہوئے پَر سے
وہ روٹھ گئے ہم سے جدا ان سے ہوئے ہم
اب چھیڑ اٹھے گی نہ اِدھر سے نہ اُدھر سے
لوگوں کا حسد شعر کی شہرت سے بڑھے گا
خوف آتا ہے خود مجھ کو نصیرؔ اپنے ہنر سے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام