شاید عزیزؔ آہ میں تاثیر ہوگئی

غزل| عزیزؔ لکھنوی انتخاب| بزم سخن

شاید عزیزؔ آہ میں تاثیر ہوگئی
دنیا تمام درد کی تصویر ہوگئی
لوحِ حیات آپ کی تقدیر ہوگئی
جو بات کی نوشتۂ تقدیر ہوگئی
جتنی مصیبتیں تھیں وہ لکھ دیں مرے یہاں
بس ختم سعئ کاتب تقدیر ہوگئی
دل کو جلا کے دولتِ جاوید پا گیا
اتنی سی خاک مایۂ اکسیر ہوگئی
اے سعئ نامراد! بتا کیا جواب دوں
تقدیر پوچھتی ہے کہ تدبیر ہوگئی
کہیے کہ اب میں اپنی حقیقت کو کیا کہوں
جو سانس لی وہ آپ کی تصویر ہوگئی
ہاتھوں سے میرے دامنِ رحمت چھڑا تو لے
ہاں ہاں! یہ جانتا ہوں کہ تقصیر ہوگئی
تھا نزع میں بھی سلسلۂ قیدِ غم وہی
اینٹھی جو رگ وہ حلقۂ زنجیر ہوگئی
آزاد ہوں قیودِ جہنم سے دوستو!
میری حیات ہی مجھے تعزیر ہوگئی
دل کو ہے اعتراف زباں معترف نہ ہو
ایمان کی تو یہ ہے کہ تقصیر ہوگئی
اب دل پہ یادگارِ سعیدہ کا داغ ہے
پیوندِ خاک چاند سی تصویر ہوگئی
ہستی کی شرح نزع میں کرتا مگر عزیزؔ
دو ہچکیوں میں ختم یہ تفسیر ہوگئی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام