رک گیا آنکھ سے بہتا ہوا دریا کیسے

غزل| کرشن بہاری نورؔ انتخاب| ابو الحسن علی

رک گیا آنکھ سے بہتا ہوا دریا کیسے
غم کا طوفاں تو بہت تیز تھا ٹھہرا کیسے
ہر گھڑی تیرے خیالوں میں گھرا رہتا ہوں
ملنا چاہوں تو ملوں خود سے میں تنہا کیسے
مجھ سے جب ترکِ تعلق کا کیا عہد تو پھر
مڑ کے میری ہی طرف آپ نے دیکھا کیسے
مجھ کو خود پر بھی بھروسا نہیں ہونے پاتا
لوگ کر لیتے ہیں غیروں پہ بھروسا کیسے
دوستوں شکر کرو مجھ سے ملاقات ہوئی
یہ نہ پوچھو کہ لٹی ہے مری دنیا کیسے
دیکھی ہونٹوں کی ہنسی زخم نہ دیکھے دل کے
آپ دنیا کی طرف کھا گئے دھوکا کیسے
آپ بھی اہلِ خرد اہلِ جنوں تھے موجود
لٹ گئے ہم بھی تری بزم میں تنہا کیسے
اس جنم میں تو کبھی میں نہ ادھر سے گزرا
تیری راہوں میں مرے نقشِ کفِ پا کیسے
آنکھ جس جا پہ بھی پڑتی ہے ٹھہر جاتی ہے
لکھنا چاہوں تو لکھوں تیرا سراپا کیسے
زلفیں چہرے سے ہٹا لو کہ ہٹا دوں میں خود
نورؔ کے ہوتے ہوئے اتنا اندھیرا کیسے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام