یار بھی راہ کی دیوار سمجھتے ہیں مجھے

غزل| شاہدؔ ذکی انتخاب| بزم سخن

یار بھی راہ کی دیوار سمجھتے ہیں مجھے
میں سمجھتا تھا مرے یار سمجھتے ہیں مجھے
جڑ اکھڑنے سے جھکاؤ ہے مری شاخوں میں
دور سے لوگ ثمر بار سمجھتے ہیں مجھے
کیا خبر کل یہی تابوت مرا بن جائے
آپ جس تخت کا حق دار سمجھتے ہیں مجھے
نیک لوگوں میں مجھے نیک گنا جاتا ہے
اور گنہ گار گنہ گار سمجھتے ہیں مجھے
میں تو خود بکنے کو بازار میں آیا ہوا ہوں
اور دکاں دار خریدار سمجھتے ہیں مجھے
میں بدلتے ہوئے حالات میں ڈھل جاتا ہوں
دیکھنے والے اداکار سمجھتے ہیں مجھے
وہ جو اُس پار ہیں اِس پار مجھے جانتے ہیں
یہ جو اِس پار ہیں اُس پار سمجھتے ہیں مجھے
میں تو یوں چپ ہوں کہ اندر سے بہت خالی ہوں
اور یہ لوگ پر اسرار سمجھتے ہیں مجھے
روشنی بانٹتا ہوں سرحدوں کے پار بھی میں
ہم وطن اس لئے غدار سمجھتے ہیں مجھے
جرم یہ ہے کہ ان اندھوں میں ہوں آنکھوں والا
اور سزا یہ ہے کہ سردار سمجھتے ہیں مجھے
چھاؤں دینے سے گریزاں ہیں کچھ ایسے جیسے
پیڑ سورج کا طرفدار سمجھتے ہیں مجھے
پاؤں ميں خار لئے باغ میں بیٹھا ہوا ہوں
پھول خوشبو کا گرفتار سمجھتے ہیں مجھے

لاش کی طرح سرِ آب ہوں میں اور شاہدؔ
ڈوبنے والے مددگار سمجھتے ہیں مجھے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام