نظر ملا نہ سکے اس سے اس نگاہ کے بعد

غزل| کرشن بہاری نورؔ انتخاب| بزم سخن

نظر ملا نہ سکے اس سے اس نگاہ کے بعد
وہی ہے حال ہمارا جو ہو گناہ کے بعد
میں کیسے اور کس سمت موڑتا خود کو
کسی کی چاہ نہ تھی دل میں تیری چاہ کے بعد
ضمیر کانپ تو جاتا ہے آپ کچھ بھی کہیں
وہ ہو گناہ سے پہلے کہ ہو گناہ کے بعد
کٹی ہوئی تھیں طنابیں تمام رشتوں کی
چھپاتا سر میں کہاں تجھ سے رسم و راہ کے بعد

گواہ چاہ رہے تھے وہ بے گناہی کا
زباں سے کہہ نہ سکا کچھ خدا گواہ کے بعد


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام