یہ حکم ہے کہ قطاریں بنا کے چلتے رہو

غزل| عزیز نبیلؔ انتخاب| بزم سخن

یہ حکم ہے کہ قطاریں بنا کے چلتے رہو
کہیں رکو نہ تھکو سر جھکا کے چلتے رہو
وہ حبس ہے کہ الجھنے لگی ہے جسم سے روح
سفر طویل ہے سانسیں بچا کے چلتے رہو
ٹھہر گئے ہو تو واپس یہیں سے ہو جاؤ
جو چل رہے ہو تو سب کچھ بھلا کے چلتے رہو
سروں پہ خوابوں کی ویران گٹھریاں لادو
اور اپنے حصّے کی ہجرت اٹھا کے چلتے رہو
زمیں سے کوئی توقع نہ آسماں سے امید
سب اپنا اپنا خسارا اٹھا کے چلتے رہو
نہ کشتیاں ہیں میسّر نہ معجزہ ہوگا
اسی بھنور کو کنارا بنا کے چلتے رہو
خیال رکّھو کہ رفتار ہے تو منزل ہے
تھکن کو پاؤں کے نیچے دبا کے چلتے رہو
کبھی تو پانی پلٹ کر جواب دے گا نبیلؔ
ہر اک کنویں پہ صدائیں لگا کے چلتے رہو



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام