حسن کی طالب نگاہیں دل تمنا آشنا

غزل| احسان دانشؔ انتخاب| بزم سخن

حسن کی طالب نگاہیں دل تمنا آشنا
زندگی لائی ہے اپنے ساتھ کیا کیا آشنا
دوستوں تک میں خلوصِ دل اثر رکھتا نہیں
دشمنوں میں لوگ کر لیتے ہیں پیدا آشنا
روز بن جاتا ہے اُن کا حسن موضوعِ کلام
اک قیامت روز کر دیتے ہیں برپا آشنا
جیسی قیمت ویسا پھل جیسی طلب ویسی مراد
ایک صف میں ہیں وہاں کیا اجنبی کیا آشنا
اُن کے حلقے میں مری بے تابیوں پر تبصرے
اور اُس دہلیز سے میں آج تک نا آشنا
جانے کتنے دوست اس محفل میں ہیں کتنے حریف
ہم مگر اُن کی طبیعت سے ہیں تنہا آشنا
کس طرف جائیں کہاں نکلیں کہ تم رسوا نہ ہو
ہم تو دیوانے ہیں دیوانوں سے دنیا آشنا
حشر سے ڈرتے ہو دانشؔ بزمِ دنیا سے ڈرو
نفسی نفسی ہے یہاں بھی کون کس کا آشنا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام