پیار کی راہ میں ایسے بھی مقام آتے ہیں

غزل| قتیلؔ شفائی انتخاب| بزم سخن

پیار کی راہ میں ایسے بھی مقام آتے ہیں
صرف آنسو جہاں انسان کے کام آتے ہیں
ان کی آنکھوں سے رکھے کیا کوئی امیدِ کرم
پیاس مٹ جائے تو گردش میں وہ جام آتے ہیں
زندگی بن کے وہ چلتے ہیں مری سانس کے ساتھ
اُن کو ایسے کئی اندازِ خرام آتے ہیں
ہم نہ چاہیں تو کبھی شام کے سائے نہ ڈھلیں
ہم تڑپتے ہیں تو صبحوں کے سلام آتے ہیں
ہم پہ ہو جائیں نہ کچھ اور بھی راتیں بھاری
یاد اکثر وہ ہمیں اب سرِ شام آتے ہیں
چھن گئے ہم سے جو حالات کی راہوں میں قتیلؔ
ان حسینوں کے ہمیں اب بھی پیام آتے ہیں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام